Wednesday, July 10, 2013
سالوں پہلے خزاں کی اک اداس سی شام میں
سالوں پہلے خزاں کی اک اداس سی شام میں
اک لڑکی کو بےکل میں نے دیکھا
سڑک پہ تنہا بیٹھے دیکھا
قدم اسی کی جانب اٹھ گئے
سرخ دوپٹے کے ہالے میں اپنا آپ چھپاۓ بیھٹی
ادھر ادھر وہ دیکھ رھی تھی
کاجل سی سجی آنکھوں میں،
عجب سی وحشت ناچ رہی تھی،
جب میں اس کے سامنےبیٹھا
اپنے آپ میں سمٹ گی وہ،
جیسے اک سہمی ہرنی ھو
میں نے پوچھا پیاری لڑکی،
کون ھو اپنا نام بتاؤ
مجھ سے ہر گز مت گبھراؤ
دیکھو ابھی کچھ دیر میں شام کے ساۓ گہرے پڑ جائیں گے
پھر تم کو یہاں تنہا ديکھ کر جانے کتنے لوگ آئیں گے
میری بات کو سن کر اس کی آنکھ میں پانی بھر آیا
گذرے ماضی کا ہر لمحہ آنکھ کے شیشے میں لہرایا
میرے پیار سے حوصلہ پا کر،
دھیرے سے اس نے لب کھولے
اور پھر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل شب "وہ" میرے ساتھ آیا تھا
"جس کے لۓ گھر سے بھاگی تھی"
ماں کی ممتا
باپ کی شفقت
سب کچھ بھول کے اسکی خاطر،
پرسوں پوری شب جاگی تھی
کل شب اس کے پیار میں،
میں نے' عزت ، زیور ، کپڑے لتے سب کچھ اس پر وار دیا تھا
ان سب چیزوں کی کیا وقعت'
جب دل اس پر ہار دیا تھا
لیکن وہ سنگدل ہرجائی
صبح سے مجھ کو یہاں بٹھا کر
الله جانے کہاں چلا گیا ہے؟
اس لمحے یہ جی میں آیا،
کہہ دوں اس سے پاگل لڑکی
کاغزی خواب دکھانے والے،
عزت کے ڈاکو ہوتے ہیں
یہ سرمایہ لوٹ کے ان کو
واپس کب آنا ہوتا ہے
تم کو سڑک کنارے چھوڑ کر
ان کو کسی نئی تتلی کے
پیچھے بھی جانا ہوتا ھے
اپنی عزت گنوا کر
کوئی جان سے ہاتھہ دھو بیٹھتی ہے
تو کوئی کوٹھے کی زینت بنا دی جاتی ہے
پیار کے کھیل میں پاگل لڑکی
ہر عورت دکھ ہی پاتی ھے
اپنا آپ لٹا کر ہی کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
03457568685